غازیان گلگت بلتستان بیداری شعور اور انتخابی تبدیلی کی نئی امید

غازیانِ گلگت بلتستان

تحریر : جی ایم ایڈوکیٹ

غازیان گلگت بلتستان بیداری شعور اور انتخابی تبدیلی کی نئی امید
غازیانِ گلگت بلتستان یہ نام اب صرف ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک احساس اور ایک عہد کا استعارہ بن چکا ہے۔ 2021 میں بندہ خاکسار (جی ایم ایڈوکیٹ) کی قیادت میں قائم ہونے والی یہ تنظیم اُس وقت وجود میں آئی جب غازیان گلگت بلتستان کے ہزاروں فوجی پنشنرز نے اپنی زندگی کی طویل اور قربانیوں بھری خدمات کے باوجود خود کو سماجی و معاشی طور پر نظرانداز محسوس کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی، اپنے خواب، اپنے اہلِ خانہ کی محبت اور اپنی ذاتی آسائشیں وطنِ عزیز پاکستان کے تحفظ اور دفاع کے لیے قربان کر دیں۔ انہوں نے برف پوش سیاچن کے مورچوں سے لے کر بلوچستان کے ریگزاروں، کشمیر کی وادیوں، پہاڑوں و ریگستانوں، اور بین الاقوامی امن مشنز تک اپنا خون اور پسینہ بہایا مگر افسوس کہ جب یہ غازی پنشن لے کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو ان کا استقبال اعزاز و افتخار سے زیادہ معاشی تنگی اور سماجی بے حسی سے کیا جاتا ہے۔

غازیان گلگت بلتستان
گلگت بلتستان میں ایسے غازیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے جو پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج میں مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ایک عام غازی اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ 17 سے 23 سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو کر 18 سے 35 سال تک وطن کے دفاع میں صرف کرتا ہے، اور جب وہ 35 سے 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے تو قوم کے لیے اپنی بہترین توانائی نچھاور کر چکا ہوتا ہے۔ جنگوں میں، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں، زلزلوں، سیلابوں، اور آفات میں یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے پہنچتے ہیں، لوگوں کو بچاتے ہیں، جانیں قربان کرتے ہیں۔ مگر جب یہ غازی اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں، تو ان کے حصے میں صرف ایک معمولی سی پنشن 15 سے 25 ہزار روپے ماہانہ آتی ہے جو تقریباً پورے پاکستان میں کسی بھی محکمے کے پنشنرز سے کم ہے، جو کسی طور بھی آج کے مہنگے دور میں ان کے اور ان کے خاندان کے لیے کافی نہیں۔

غازیانِ گلگت بلتستان
ان غازیان گلگت بلتستان کے پاس سول زندگی اور معاشرے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے اس لئے چاروناچار اکثر اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنے کے لیے سیکیورٹی گارڈ جیسی سخت اور کم اجرت والی نوکریاں کرتے ہیں۔ حالانکہ حکومت گلگت بلتستان نے کم از کم اجرت چالیس ہزار روپے اور آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کا نوٹیفکیشن جاری کر رکھا ہے، لیکن ان سیکیورٹی کمپنیوں میں بیٹھے طاقتور طبقے ان احکامات کو پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ 12 سے 24 گھنٹے کی ڈیوٹی، بغیر آرام، بغیر سہولت، اور بغیر کسی یونین یا لیگل تحفظ کے لیتے ہیں. یہ ظلم و ناانصافی کی وہ شکل ہے جو شاید عام شہری کے شعور تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہ غازی جو سیاچن، کارگل، یا وزیرستان میں دشمن کے سامنے سینہ سپر رہے، آج اپنی عزتِ نفس اور گھر کے خرچ کے لیے کسی سرمایہ دار کی فرمائشوں پر مجبور ہے۔ یہ معاشرہ، جو ان ہی غازیان گلگت بلتستان کے لہو سے آزاد ہوا، آج ان کی قربانیوں کو فراموش کر چکا ہے۔

غازیان گلگت بلتستان
غازیانِ گلگت بلتستان کی تحریک اس جمود کو توڑنے کی کوشش ہے۔ یہ تنظیم صرف پنشنرز کا فورم نہیں بلکہ ان سب غازیوں کا اجتماعی پلیٹ فارم ہے جو عزت، وقار اور سماجی انصاف چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد حکومت سے بھیک مانگنا نہیں بلکہ اپنے ووٹ، اپنی تنظیمی قوت، اور اپنے اخلاقی مقام کے ذریعے نظام میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہے۔ آج گلگت بلتستان کے ہر انتخابی حلقے میں تقریباً 8 سے 12 ہزار ایسےغازیان گلگت بلتستان کے ووٹ ہیں، جو اگر متحد ہو جائیں تو 24 میں سے ہر ایک نشست پر انتخابی نتائج کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف ووٹ بینک ہے بلکہ ایک اخلاقی طاقت بھی وہ کردار اور دیانت جو انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ اگر یہ تنظیم سیاسی شعور اور اجتماعی فیصلے کے ساتھ میدان میں اترے تو پورے گلگت بلتستان کا سیاسی، سماجی اور معاشی منظرنامہ بدل سکتے ہیں۔

غازیانِ گلگت بلتستان
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی تنظیمی ماڈلز کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔ امریکہ میں Veterans of Foreign Wars (VFW) اور American Legion جیسی تنظیمیں لاکھوں ریٹائرڈ فوجیوں کو نہ صرف سماجی تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ انہیں قانون سازی، پالیسی سازی اور فلاحی منصوبوں میں مؤثر آواز دیتی ہیں۔ برطانیہ میں Royal British Legion کے ذریعے سابق فوجیوں کے لیے پنشن، علاج، اور ذہنی صحت کے پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت میں بھی IESL- INDIAN EX-SERVICEMEN LEAGUE کے تحت ریٹائرڈ فوجیوں کو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ، تعلیمی رعایتیں، اور مالی سہولتیں حاصل ہیں۔ اس طرح ملک عزیز پاکستان میں Pakistan Ex-Servicemen Society PESS اور Veterans of Pakistan کے نام سے تنظیمیں جلتی ہیں جو اپنی بساط اور سمجھ کے حساب سے پنشنرز کی خدمت کرتی ہیں. گلگت بلتستان میں بھی 70 کی دھائی سے مختلف ناموں سے رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ فوجی پنشنرز کی تنظیمیں تھیں جو 5 دسمبر 2021 میں غازیان گلگت بلتستان میں مدغم ہو کر اس عظیم تنظیم کا حصہ بن گئیں. گلگت بلتستان جیسے خطے میں وہ لوگ جو سرحدوں کے اصل محافظ ہیں بدقسمتی سے اب بھی انصاف اور شناخت کے متلاشی ہیں۔
غازیانِ گلگت بلتستان کا قیام دراصل اسی تاریخی خلا کو پُر کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ یہ تنظیم چاہتی ہے کہ ہرغازی کو نہ صرف بہتر پنشن، علاج اور روزگار کے مواقع ملیں بلکہ ان کے تجربے، نظم و ضبط اور حب الوطنی سے سماج فائدہ اٹھائے۔ اگر یہ طبقہ ایک متحد سیاسی و سماجی قوت کے طور پر سامنے آ جائے تو وہ نہ صرف اپنے حقوق حاصل کر سکتا ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک نیا رول ماڈل بھی پیش کر سکتا ہے ایک ایسا پاکستان جہاں قربانی کے بعد عزتِ نفس، اور خدمت کے بعد سہارا یقینی ہو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے غازی اپنے اندر کی طاقت کو پہچانیں۔ وہ ووٹ، جو اکثر کسی جاگیردار یا سرمایہ دار کے مفاد میں استعمال ہوتا ہے، اب اپنی عزت، وقار اور طبقاتی شعور کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ اگر یہ غازیان گلگت بلتستان متحد ہو جائیں، تو وہ نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ پورے خطے کی سیاست کو شفاف، دیانت دار اور عوامی خدمت کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں۔ غازیانِ گلگت بلتستان کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے یا وہ ہمیشہ کے لیے استحصال کا شکار رہیں گے، یا اپنی قربانیوں کے مطابق عزت و اختیار کا مقام حاصل کریں گے۔ اور یقیناً، تاریخ ہمیشہ اُن کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جو اپنی طاقت کو پہچان کر اپنے حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
جی ایم ایڈوکیٹ

غازیان گلگت بلتستان

غازیان گلگت بلتستان

غازیان گلگت بلتستان بیداری شعور اور انتخابی تبدیلی کی نئی امید

غازیان گلگت بلتستان وطن کی جان ہیں

Sharing Is Caring:

Leave a Comment