از قلم ؛ طہٰ علی تابشٓ بلتستانی
میری آج کی یہ آرٹیکل بہت سارے لوگوں کے لیے باعث تکلیف دہ ہوگی ، میں بھی چاہتا ہوں تکلیف ہو ، کیونکہ حقیقت ہمیشہ تلخ ہی ہوتا ہے ۔
یہ میرا تقریباً تیسرا سال ہے جو میں مختلف اسکولوں اور کالجز میں پڑھا رہا ہوں ، اور کچھ حقائق سن کر شاید آپ کے بھی رونگٹھے کھڑے ہو جائے ۔
معزرت کے ساتھ ، ہمارے اسکولوں میں سارے قوانین ہم نے ویسٹرن کا لاگو کر رکھا ہے جب کہ گھر پر پہنچتے ہی ہم ویسٹرن کے قوانین بھول کر پیور اسلامک بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔
اسکول میں بچوں کو کھڑا کرنا ہراسمنٹ ، ہاتھ کھڑا کروانا ہراسمنٹ ، مارنا تو دور کی بات اونچے آواز میں ڈانٹنا بھی ہراسمنٹ ، اور اچھے مارکس اور بچّوں کے تربیت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ۔
ٹھیک ہے مان گیا یہ سب ٹھیک ہے لیکن بچے ٹیچرز کو سر عام کلاس میں بدتمیزی کریں ، پیٹھ پیچھے گالم گلوج کریں ، فی میل ٹیچروں کے جسموں کا پورا پورا سٹی سکیم کر کے باقی بچوں کے ذہنیت خراب کریں ، ان کے جسم کی اتار چڑھاؤ پر کمنٹس کریں ، ان کے نمبروں کو لیکر بلیک میلنگ کرنے کی کوشش کریں ، پرنسپل سے کہ کر ٹیچرز کو زلیل کریں ، اور حتی کہ بچوں کے نام نہاد والدین منہ اٹھا کر ٹیچرز کو زلیل کریں ، وہ ہراسمنٹ کیسز میں کیوں شامل نہیں ہوتے ؟
نہیں جی ، ٹیچرز تو آپ کے نوکر ہیں نا ، آپ کا بچہ گالم گلوج کریں تب بھی ٹیچر زمہ دار ، صفائی سے نہ آئے تب بھی ٹیچر زمہ دار ، باہر کسی سے لڑ کر آئے تب بھی ٹیچر زمہ دار ، اسکول سے باہر لڑکی کو چھیڑنے تب بھی ٹیچر زمہ دار ، روڈ میں ون ویلنگ کریں تب بھی ٹیچر زمہ دار ، ہوم ورک نا کر کے آئے تب بھی ٹیچر زمہ دار ، حتی کہ گھر میں ماں باپ سے بھی بدتمیزی کریں تب بھی ٹیچر زمہ دار ۔
اور اگر ٹیچر کے سامنے بدتمیزی کرنے پر ٹیچر کچھ کہیں تو پورا معاشرہ ، والدین ، نام نہاد نیوز رپورٹر اور حتی کے دو ٹکے کے سوشل میڈیا کا استعمال تک نا جانے والے لبرل بھی ٹیچرز کو جلاد ، دہشت گرد ، تھانہ دار اور پتا نہیں کیا کچھ بولتے ہیں ۔۔۔
میں ایک ایسے پراویٹ اسکول میں پڑھاتا تھا جہاں سٹوڈنٹس ٹیچرز کے سامنے نسوار کھاتے تھے ، سیگریٹ پیتے تھے ، اور پتا نہیں کیا کچھ کرتے تھے ۔
کچھ کہ تو نہیں سکتا تھا لیکن پرنسپل صاحب اور ایم ڈی سے شکایت کرنے پر وہ یہی کہتا تھا ” آپ میں دم نہیں ہے ، اسی لیے بچے ایسے کرتے ہیں”
اور
ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ یہ ” دم ” کیا چیز ہے ۔
روز بہ روز بچے اسکولوں میں بدتمیزیاں کرتے ہیں ، بدتمیزیاں کرنا فخر سمجھتے ہیں، اخلاقیات تو لگتا ہے شاید ان کے وجود میں ہی نہیں ہیں ۔۔۔
ٹھیک ہے ۔
جب سے ہمارے پورا معاشرہ ، قانون اور آرگنائزیشن طلبہ کے حقوق کے اوپر بات کر رہے تھے ۔ اور اساتذہ کو زلیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، نقصان کس کا ہو رہا ہے ۔
پہلے ایک دور تھا ، جب بچے والدین کا کم از کم احترام نہیں رکھتے تو استاد کا تو ضرور احترام کرتے تھے ، والدین کا نہ نا سنے تو استادوں کا تو ضرور سنتے تھے ، والدین سے نہ ڈرے تو کم از کم استادوں سے ڈر کر غلط کام نہیں کرتے تھے ۔
لیکن افسوس ۔
اب اساتذہ نے بھی بچوں کو آپ کی طرح بچوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے ، اب بچہ جو بھی کریں ایک اندھے کی طرح خاموش اپنے راستے پر منہ نیچے کر کے گزر جاتے ہیں ۔ اب بچہ غلط کام کریں ، گالم گلوج کریں یا سگریٹ نوشی کریں یا نسوار کھائیں ، ان دیکھی کر کے بیٹھ جاتا ہے۔
جب آپ نے استاد سے والدین کا حق چھین لیا ہے تو اب وہ بھی والدین کی طرح بچوں کی ذہنی نشوونما کرنا اور تربیت کرنا چھوڑ دیا ہے ۔
اور نتیجہ آپ کے سامنے ہیں ، اب نہ ہمارے معاشرے بزرگوں کا کوئی احترام رہا ، اور نہی خواتین محفوظ رہے ۔۔۔
اور میں دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں ، ہر برے کام کرنے والا شخص تھوڑا پڑھا لکھا ضرور ہوتا ہے
جنہیں صرف اداروں سے تعلیم ملی ہیں تربیت نہیں ۔
میں مار پیٹھ کا ہرگز ساتھ نہیں ہوں ، لیکن اگر کوئی استاد کبھی کبھار بچوں کو ڈانٹتے ہیں تو اس کو راہ راست پر رکھنے کے لیے ڈانٹتے ہیں ۔
خدارا !
استادوں کو اتنا بھی زلیل نہ کریں کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جائے اور آپ کے پاس گھٹنے پر سر رکھ کر رونے کے علاؤہ دوسرا کوئی راستہ نہ ہو ۔
آپ جتنا ہی استادوں کو زلیل کرنے کی کوشش کرینگے اس کا اثر آپ کی بچے کے اوپر ضرور آئینگے ۔
نوٹ ؛
اگر آپ ایک استاد ہے تو تحریر کو ہر تک پہنچائے تاکہ آنے والوں میں استادوں کی عزت مجروح نہ ہو اور استاد ایک باپ کی مانند بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کرسکے ۔
۔۔۔
طہٰ علی تابشٓ بلتستانی
ہمارے اسکولوں میں سارے قوانین ہم نے ویسٹرن کا لاگو کر رکھا ہے
