- تحریر: اقبال عیسیٰ خان
- تاریخ: 23 اکتوبر 2025
گزشتہ صدی کے وسط تک گلگت بلتستان اور چترال جنوبی ایشیا کے اُن خطّوں میں شمار ہوتے تھے جہاں غربت، پسماندگی اور محرومی زندگی کی پہچان تھی۔ ذرائع مواصلات ناپید، تعلیم و صحت کے ادارے نہ ہونے کے برابر، روزگار کے مواقع محدود، اور قدرتی وسائل کے استعمال کی کوئی منظم پالیسی موجود نہیں تھی۔ ریاستی توجہ بھی شاذونادر ہی ان بلند و بالا وادیوں تک پہنچ پاتی تھی۔ ایسے میں ایک شخصیت نے خاموش مگر گہری بصیرت کے ساتھ تبدیلی کی بنیاد رکھی, ہز ہائنس شاہ کریم آغا خان۔ اُن کا وژن، جو خدمتِ انسانیت، علم، اور خودانحصاری کے اصولوں پر مبنی تھا، جلد ہی ایک ہمہ گیر ترقیاتی نیٹ ورک کی صورت میں اُبھرا جسے آج دنیا آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کے نام سے جانتی ہے۔ اس نیٹ ورک نے چند دہائیوں میں اس خطے کی سماجی و معاشی تقدیر بدل کر رکھ دی۔
انیس سو اسی کی دہائی میں شروع ہونے والا آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) اس وژن کا عملی مظہر ثابت ہوا۔ اس پروگرام کا مقصد صرف غربت کم کرنا نہیں بلکہ مقامی آبادی کو اپنی ترقی کے فیصلوں کا خود مالک بنانا تھا۔ پچھلے چالیس برسوں میں AKRSP نے گلگت، بلتستان اور چترال کے تقریباً ایک ہزار ایک سو دیہات میں کام کیا، جہاں نو لاکھ سے زائد افراد براہِ راست اس پروگرام سے مستفید ہوئے۔ چار ہزار سے زیادہ چھوٹے پیمانے کے منصوبے , جن میں پل، سڑکیں، آبپاشی چینلز، اور مائیکرو ہائیڈرو پاور یونٹس شامل ہیں, اس خطے کی معیشت کو نئی جان بخشنے کا سبب بنے۔
اعداد و شمار کے مطابق، ان کمیونٹی منصوبوں کے ذریعے پانچ ملین ڈالر سے زائد کی مقامی بچتیں وجود میں آئیں، جبکہ چار ہزار نو سو سے زیادہ کمیونٹی تنظیمیں قائم ہوئیں جنہوں نے ترقیاتی منصوبہ بندی اور مالی نظم و نسق میں شفافیت اور خودمختاری کی مثال قائم کی۔ آج ہنزہ، غذر، یاسین اور چترال جیسے اضلاع میں یہی ادارے پائیدار ترقی کی بنیاد بن چکے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں بھی اس انقلاب کے اثرات واضح ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں جب خواندگی کی شرح دس فیصد سے بھی کم تھی، آج وہ ہنزہ اور غذر جیسے اضلاع میں نوّے فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ آغا خان ایجوکیشن سروسز (AKES) کے تحت قائم اسکولوں نے معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ خواتین اساتذہ اور طلبات کو نمایاں کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ صحت کے میدان میں آغا خان ہیلتھ سروسز (AKHS) نے دیہی مراکزِ صحت، موبائل کلینکس اور ریفرل سسٹم کے ذریعے ایک نیا ماڈل متعارف کرایا۔ چترال اور گلگت میں ماں اور بچے کی اموات کی شرح میں گزشتہ تیس برسوں میں ساٹھ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی , جو ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔
معاشی لحاظ سے شمالی پاکستان اب پسماندگی کی نہیں بلکہ جدت و خودانحصاری کی مثال ہے۔ مائیکروفنانس اسکیموں نے چھوٹے کاروبار، زراعت، دستکاری اور سیاحت کے شعبوں کو مستحکم کیا۔ آج ہنزہ، نگر اور چترال کے نوجوان نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی مصنوعات، ڈیجیٹل خدمات، اور تخلیقی منصوبوں کے ذریعے مقام حاصل کر رہے ہیں۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق، 1980ء سے اب تک گلگت بلتستان میں فی کس آمدنی میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ غربت کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
توانائی کے شعبے میں مائیکرو ہائیڈرو پاور منصوبے اس خطے کی شناخت بن چکے ہیں۔ ہزاروں گھرانے جو کبھی لکڑی یا تیل کے دیوں پر انحصار کرتے تھے، اب بجلی سے منور ہیں۔ ان منصوبوں کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی اور انہیں Energy Globe Award جیسے عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ خواتین کی معاشی شمولیت میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے , آج گلگت بلتستان اور چترال کی ہزاروں خواتین چھوٹے کاروبار، فوڈ پراسیسنگ، دستکاری اور سیاحت کے منصوبوں میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
یقیناً اس خطے کو آج بھی موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے پگھلنے سے پانی کی کمی، اور نوجوانوں کے لیے پائیدار روزگار جیسے چیلنجز درپیش ہیں، مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ مقامی آبادی نے اپنی صلاحیتوں پر یقین قائم کرلیا ہے۔ مضبوط ادارے، تعلیم یافتہ نوجوان، فعال خواتین، اور عالمی معیار کی ترقیاتی منصوبہ بندی , یہ سب عوامل گلگت بلتستان اور چترال کو ایک روشن اور پائیدار مستقبل کی طرف لے جا رہے ہیں۔
ہز ہائنس شاہ کریم آغا خان اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی طویل المدتی کاوشیں خدمت، وژن، اور قیادت کی وہ درخشاں مثال ہیں جنہوں نے ایک پسماندہ پہاڑی خطے کو “ترقی کے محتاج” سے “ترقی کی مثال” میں تبدیل کر دیا۔ آج ہنزہ، گلگت اور چترال نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے اُن چند خطّوں میں شامل ہیں جو تعلیم، صحت، سیاحت اور سماجی ترقی کے اعتبار سے عالمی سطح پر پہچان بنا چکے ہیں۔ یہ کہانی امداد کی نہیں بلکہ ایمان، عزم اور اجتماعی خدمت کی ہے , جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر نیت خالص ہو اور قیادت مخلص، تو دنیا کا کوئی پہاڑ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
گلگت بلتستان اور چترال میں 1960 کی بدترین غربت

گلگت
