اقلیتوں کا المیہ
پی ٹی این رپورٹ
دنیا کی تاریخ میں اقلیتوں کا کردار ہمیشہ ایک پیچیدہ اور دردناک باب کی صورت میں رہا ہے۔ چاہے مذہب، نسل، قومیت یا نظریے کی بنیاد پر ہو، اقلیتوں کو اکثر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں ان کی شناخت، حقوق اور آواز کو دبانے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی گئی۔
اقلیتوں کا المیہ
اقلیت ہمیشہ کسی نہ کسی اکثریت کے دباؤ میں رہتی ہے۔ یہ دباؤ کبھی سیاسی، کبھی معاشی اور کبھی سماجی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اکثریت میں یہ فطری کمزوری یا لاشعوری رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی برتری قائم رکھے۔ نتیجتاً اقلیتیں زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے دھکیلی جاتی ہیں — تعلیم سے لے کر روزگار تک، سیاست سے لے کر اظہارِ رائے تک۔
اقلیتوں کے مسائل کا دوسرا پہلو ان کا بکھراؤ اور تقسیم ہے۔ جب کوئی برادری اپنے اندر اتحاد برقرار نہیں رکھ پاتی تو وہ اجتماعی طاقت سے محروم ہو جاتی ہے۔ ایک منقسم قوم اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ یہی انتشار ان کی کمزوری بن جاتا ہے، جسے اکثریتی طبقات بآسانی استعمال کر لیتے ہیں۔
اقلیتوں کا المیہ

تیسری بڑی وجہ اقلیتوں کا پرامن مزاج ہے۔ وہ تصادم سے بچنے اور بقا کے لیے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ خاموشی کمزوری بن جاتی ہے۔ اکثریت اس سکوت کو کمزور مزاحمت سمجھتی ہے اور مزید دباؤ ڈالتی ہے۔ اس مسلسل ذہنی اور معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں اقلیتی نوجوان احساسِ محرومی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں اپنی شناخت کے بارے میں غیر یقینی اور معاشرتی بے اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔
اقلیتوں کا المیہ
اقلیتوں کی بقا کے لیے سب سے اہم عنصر تعلیم، تنظیم اور شعور ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی اقلیتیں ترقی کر پاتی ہیں جنہوں نے اپنی وحدت اور فکری بالیدگی کو زندہ رکھا۔ اگر وہ اپنی ثقافت، زبان اور نظریاتی ورثے کو مثبت انداز میں زندہ رکھیں، تو وہ دباؤ کے باوجود ترقی کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔
اقلیتوں کا المیہ
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اسی وقت ممکن ہے جب اس میں موجود اقلیتیں خود کو محفوظ، باعزت اور مساوی محسوس کریں۔ اکثریت کی حقیقی عظمت تب ثابت ہوتی ہے جب وہ کمزور طبقوں کے حقوق کا احترام کرے۔ دنیا کا ہر مہذب معاشرہ اسی اصول پر قائم ہوا ہے ، کہ انصاف اور برابری کسی عددی طاقت کے نہیں، بلکہ انسانی شرافت کے پیمانے سے ماپی جاتی ہے۔